بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرب کے مشرکین اور لاثانی فرقے کے مشرکین کا عقیدہ
قارئین کرام قرآن پاک میں اللہ رب العزت عرب کے مشرکین کا ایک شرکیہ عقیدہ بیان فرماتا ہے کہ:
وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْباً فَقَالُوْا ھَذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِھِمْ وَ ھَذَا لِشُرَکآءِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآءِھِمْ فَلاَ یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَھُوَ یَصِلُ اِلَی شُرَکٓاءِھِمْ سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ
(سورہ انعام ،آیت ۱۲۶،پارہ ۸)
اور ان لوگوں نے اللہ کیلئے ایک حصہ کھیتیوں اور مویشیوں میں سے مقرر کردیا جو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں سو انہوں نے اپنے خیال سے یوں کہا کہ یہ اللہ کیلئے ہے اوریہ ہمار ے شرکاء کیلئے ہے سوجو جو ان کے معبودوں کیلئے ہے وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کیلئے ہے وہ ان کے شرکاء کی طرف پہنچ جاتا ہے یہ لوگ کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں۔
مفسرین کرام ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مشرکین نے اپنے اموال میں خود ساختہ تقسیمیں کی ہوئی تھیں کچھ حصہ تو بتوں کیلئے مقرر کرتے کچھ اللہ کیلئے اب ہوتا یہ کہ جو حصہ اللہ کیلئے مقرر ہوتا اس میں سے کوئی چیز اگر بتوں والے حصہ میں چلی جاتی تو رہنے دیتے اور کہتے بھلا اللہ کو اس کی کیا حاجت اور اگر بتوں والے حصہ میں سے کوئی چیز اللہ کے نام کئے ہوئے حصہ میں چلا جاتا تو فورا اس کو جدا کرکے دوبارہ بتوں والے حصہ میں شامل کرلیتے۔۔
اب آئے ہم آپ کو پاکستان کے ایک ایسے ہی مشرک یعنی صوفی مسعود احمد المعروف لاثانی سرکار کے عقیدے سے واقف کراتے ہیں جس نے اپنی شریعت میں بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان اسی طرح تقسیم کی ہوئی ہے اور جو حصہ اللہ کے نام پر ہو اسے تو ہر ایک کے نصیب میں دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور جو حصہ نبی ﷺ کے نام پر ہو تو اسے صرف مخصوص لوگوں کو دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔۔چنانچہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ :
میرے پیر و مرشد سیدنا چادر والی سرکار کا طریق یہ تھا کہ آپ اگر کبھی اللہ کے نام پر دینا چاہتے توخواہ کیسا ہی انسان ہوتا اس کو خیرات کردیتے لیکن جب کبھی حضور نبی کریم ﷺ ،اہل بیت ،یا بزرگان دین کے نام پر کسی کو کچھ (کھانا ،لباس ،یا استعمال کی کوئی چیز )دیتے تو ہمیشہ یہ احتیاط فرماتے کہ کوئی نیک مومون یا پرہیز گار آدمی کو ہی خیرات کریں۔ (راہنمائے اولیاء مع روحانی نکات ،ص ۲۵۲)
کیا صوفی صاحب اپنے پیر جی کی اس خودساختہ تقسیم کا ثبوت قرآن و حدیث یا فقہ کی کتاب سے دینے کی جرات کریں گے۔۔۔؟؟؟
اسی طرح اللہ رب العزت مشرکین مکہ کا ایک اور شرکیہ عقیدہ بیان فرماتے ہیں کہ:
وَ قَالُوْا ھَذِہٖ اَنْعَام’‘ وَّ حَرْث’‘ حِجْر’‘ لاَ یَطْعَمُھَا اِلَّا مَنْ نَشَآءُ بِزَعْمِھِمْ (انعام ،۱۲۶)
اور انہوں نے اپنے خیال کے مطابق یوں کہا کہ یہ مویشی اور کھتی ہے جس پر پابندی ہے اس کو بس وہی لوگ اس میں سے کھائیں گے جس کو ہم چاہیں
آگے اللہ تعالی ان کا ایک اور عقیدہ بیان فرماتا ہے کہ :
وَ قَالوُاْ مَا فِیْ بُطُوْنِ ھَذِہٖ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃً لِذُکُوْرِنَا وَ مُحَرَّم’‘ عَلَی اَزْوَاجِنَا (سورہ انعام ،آیت۱۲۹)
اور انہوں نے کہا کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹوں میں ہے وہ ہمارے مردوں کیلئے خالص ہے اور ہماری بیویوں پر حرام قرار دیا گیا ہے
یعنی ان مشرکین کا ایک شرکیہ عقیدہ یہ بھی تھا کہ نذر و نیاز پر خود ساختہ پابندیاں لگائی ہوئی تھیں کہ اسے صرف وہی لوگ کھاسکتے ہیں جسے ہم چاہیں یا اس مال کو مرد تو کھاسکتے ہیں عورتوں پر حرام ہے۔بعینیہ یہی عقیدہ پاکستان کے مشرک ’’لاثانی سرکار ‘‘کا بھی ہے بس فرق یہ ہے کہ مشرکین نے عورتوں پر حرام قرار دیا تھااس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں مردوں پر حرام قرار دیا ملاحظہ ہو:
آ پ کی احتیاط کا تو یہ عالم تھا کہ ازواج مطہرات کے نام پر دیجانے والی چیزیں کو تو کسی مرد کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتے تھے اور ازواج مطہرات کے نام پر دیتے وقت نیک اور پرہیز گار خواتین کو ہی دیتے ۔
(رہنمائے اولیاء مع روحانی نکات ،ص۲۵۲)
ہم نام نہاد صوفی صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ان میں جرات ہے تو اپنے پیر کی اس خود ساختہ شریعت کا ثبوت قرآن و حدیث یا مستند کتب فقہ سے دیں بصورت دیگر ہم یہ فیصلہ اپنے پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ قرآن کی آیات پڑھ کر ان مشرکوں پر لعنت بھیجتے ہیں یا اس کے ہاتھ پر بیعت ہوکر مشرکین مکہ کے گروہ میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں۔۔یاد رہے کہ نذر ونیاز منت وغیرہ صرف اللہ کیلئے ہے انبیاء یا بزرگوں کے نام کی نذر و نیاز کا مال خنزیر سے بھی زیادہ نجس و مردار ہے مطالبے پر ثبوت بھی انشاء للہ فراہم کردئے جائیں گے۔
عرب کے مشرکین اور لاثانی فرقے کے مشرکین کا عقیدہ
قارئین کرام قرآن پاک میں اللہ رب العزت عرب کے مشرکین کا ایک شرکیہ عقیدہ بیان فرماتا ہے کہ:
وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْباً فَقَالُوْا ھَذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِھِمْ وَ ھَذَا لِشُرَکآءِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآءِھِمْ فَلاَ یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَھُوَ یَصِلُ اِلَی شُرَکٓاءِھِمْ سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ
(سورہ انعام ،آیت ۱۲۶،پارہ ۸)
اور ان لوگوں نے اللہ کیلئے ایک حصہ کھیتیوں اور مویشیوں میں سے مقرر کردیا جو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں سو انہوں نے اپنے خیال سے یوں کہا کہ یہ اللہ کیلئے ہے اوریہ ہمار ے شرکاء کیلئے ہے سوجو جو ان کے معبودوں کیلئے ہے وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کیلئے ہے وہ ان کے شرکاء کی طرف پہنچ جاتا ہے یہ لوگ کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں۔
مفسرین کرام ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مشرکین نے اپنے اموال میں خود ساختہ تقسیمیں کی ہوئی تھیں کچھ حصہ تو بتوں کیلئے مقرر کرتے کچھ اللہ کیلئے اب ہوتا یہ کہ جو حصہ اللہ کیلئے مقرر ہوتا اس میں سے کوئی چیز اگر بتوں والے حصہ میں چلی جاتی تو رہنے دیتے اور کہتے بھلا اللہ کو اس کی کیا حاجت اور اگر بتوں والے حصہ میں سے کوئی چیز اللہ کے نام کئے ہوئے حصہ میں چلا جاتا تو فورا اس کو جدا کرکے دوبارہ بتوں والے حصہ میں شامل کرلیتے۔۔
اب آئے ہم آپ کو پاکستان کے ایک ایسے ہی مشرک یعنی صوفی مسعود احمد المعروف لاثانی سرکار کے عقیدے سے واقف کراتے ہیں جس نے اپنی شریعت میں بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان اسی طرح تقسیم کی ہوئی ہے اور جو حصہ اللہ کے نام پر ہو اسے تو ہر ایک کے نصیب میں دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور جو حصہ نبی ﷺ کے نام پر ہو تو اسے صرف مخصوص لوگوں کو دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔۔چنانچہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ :
میرے پیر و مرشد سیدنا چادر والی سرکار کا طریق یہ تھا کہ آپ اگر کبھی اللہ کے نام پر دینا چاہتے توخواہ کیسا ہی انسان ہوتا اس کو خیرات کردیتے لیکن جب کبھی حضور نبی کریم ﷺ ،اہل بیت ،یا بزرگان دین کے نام پر کسی کو کچھ (کھانا ،لباس ،یا استعمال کی کوئی چیز )دیتے تو ہمیشہ یہ احتیاط فرماتے کہ کوئی نیک مومون یا پرہیز گار آدمی کو ہی خیرات کریں۔ (راہنمائے اولیاء مع روحانی نکات ،ص ۲۵۲)
کیا صوفی صاحب اپنے پیر جی کی اس خودساختہ تقسیم کا ثبوت قرآن و حدیث یا فقہ کی کتاب سے دینے کی جرات کریں گے۔۔۔؟؟؟
اسی طرح اللہ رب العزت مشرکین مکہ کا ایک اور شرکیہ عقیدہ بیان فرماتے ہیں کہ:
وَ قَالُوْا ھَذِہٖ اَنْعَام’‘ وَّ حَرْث’‘ حِجْر’‘ لاَ یَطْعَمُھَا اِلَّا مَنْ نَشَآءُ بِزَعْمِھِمْ (انعام ،۱۲۶)
اور انہوں نے اپنے خیال کے مطابق یوں کہا کہ یہ مویشی اور کھتی ہے جس پر پابندی ہے اس کو بس وہی لوگ اس میں سے کھائیں گے جس کو ہم چاہیں
آگے اللہ تعالی ان کا ایک اور عقیدہ بیان فرماتا ہے کہ :
وَ قَالوُاْ مَا فِیْ بُطُوْنِ ھَذِہٖ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃً لِذُکُوْرِنَا وَ مُحَرَّم’‘ عَلَی اَزْوَاجِنَا (سورہ انعام ،آیت۱۲۹)
اور انہوں نے کہا کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹوں میں ہے وہ ہمارے مردوں کیلئے خالص ہے اور ہماری بیویوں پر حرام قرار دیا گیا ہے
یعنی ان مشرکین کا ایک شرکیہ عقیدہ یہ بھی تھا کہ نذر و نیاز پر خود ساختہ پابندیاں لگائی ہوئی تھیں کہ اسے صرف وہی لوگ کھاسکتے ہیں جسے ہم چاہیں یا اس مال کو مرد تو کھاسکتے ہیں عورتوں پر حرام ہے۔بعینیہ یہی عقیدہ پاکستان کے مشرک ’’لاثانی سرکار ‘‘کا بھی ہے بس فرق یہ ہے کہ مشرکین نے عورتوں پر حرام قرار دیا تھااس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں مردوں پر حرام قرار دیا ملاحظہ ہو:
آ پ کی احتیاط کا تو یہ عالم تھا کہ ازواج مطہرات کے نام پر دیجانے والی چیزیں کو تو کسی مرد کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتے تھے اور ازواج مطہرات کے نام پر دیتے وقت نیک اور پرہیز گار خواتین کو ہی دیتے ۔
(رہنمائے اولیاء مع روحانی نکات ،ص۲۵۲)
ہم نام نہاد صوفی صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ان میں جرات ہے تو اپنے پیر کی اس خود ساختہ شریعت کا ثبوت قرآن و حدیث یا مستند کتب فقہ سے دیں بصورت دیگر ہم یہ فیصلہ اپنے پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ قرآن کی آیات پڑھ کر ان مشرکوں پر لعنت بھیجتے ہیں یا اس کے ہاتھ پر بیعت ہوکر مشرکین مکہ کے گروہ میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں۔۔یاد رہے کہ نذر ونیاز منت وغیرہ صرف اللہ کیلئے ہے انبیاء یا بزرگوں کے نام کی نذر و نیاز کا مال خنزیر سے بھی زیادہ نجس و مردار ہے مطالبے پر ثبوت بھی انشاء للہ فراہم کردئے جائیں گے۔